تم فقط میرے
تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر25
آخری قسط
کاش عنقا بھی عدیل کی ایسے ہی فکر کرتی۔۔!! اس کی امی کے دل میں ارمان سا جاگا۔
××××
عدیل ، عنقا کے بغیر گھر پہنچا تو اس کی مام نے اس کے بارے میں پوچھا، وہ فی الحال کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا، اور بحث سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ کچھ وقت کے لیے، حقیقت کو چھپا لیا جائے، اس لیے اس نے یہ جھوٹ بول کر جان چھڑائی کہ وہ ایک دو دن کے لیے اپنی امی کے ہاں رہنے گئی ہے، فوزیہ بیگم کو اس کا اچانک جانا عجیب لگا تھا پر وہ عدیل کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے خاموش رہیں،انہوں نے عدیل کو کھانے کا بولا تو اس نے منع کردیا، اس کا دل ہی نہیں کر رہا تھا کچھ کھانے کا۔
اس کا موڈ بہت خراب تھا، وہ سست روی سے چلتا اپنے روم تک گیا، فریش ہوا، کپڑے چینج کیے اور آرام کی غرض سے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے، اسے لگا تھا کہ وہ اپنے جرم کا ازالہ کر چکا ہے، پر نہیں وہ غلط تھا ، ابھی تک وہ کچھ نہیں کر پایا تھا، نہ ابھی تک کچھ ٹھیک ہوا تھا اور نہ ہی بدلا تھا، عنقا اتنے عرصے اس کے ساتھ رہنے کے باوجود اسے یہ مقام نہیں دے سکی کہ وہ اس سے اپنی محبت کا اظہار کر پاتی۔۔ یہ تو طے تھا کہ وہ بھی اسے چاہنے لگی ہے پر اس کا اظہار نہ کرنا اس بات کی دلیل تھا کہ اس نے عدیل کو معاف نہیں کیا کیا کیا ۔۔ یا اسے دل سے قبول نہیں کیا۔۔ وہ یوں ہی لیٹا لیٹا، افسوس سے سوچتا گیا۔
پر یہ محض اس کی سوچ تھی۔۔ ورنہ عنقا تو کب کا ، اپنا دل،اپنے تمام تر حسین جذبوں کے ساتھ اسے سونپ چکی تھی۔۔ بس اسے ابھی اس بات کا صحیح طرح احساس نہیں ہوا تھا۔
×××
عدیل مسلسل اپنی سوچوں میں گم تھا۔
"میں نے بھی تو ابھی تک اس سے معافی نہیں مانگی۔۔!! لیکن اسے پتہ تو ہے کہ میں اپنے کیے پر پشیمان ہوں، تو وہ ایسا نہ کرتی۔۔" اس نے اپنے تخیل میں ہی ایک شکوہ سا کیا۔ اور کچھ پھر دیر تک خالی الذہن رہا۔ جیسے اس کا ذہن کہیں رک سا گیا ہو یا سوچیں جمود کا شکار ہوگئی ہوں۔۔!!
کچھ دیر اسی کیفیت میں رہتے رہتے ، اس کے ذہن میں ایک خیال کوندا،
"ایسے تو مجھے بھی پتہ ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔ پھر مجھے، اس کے منہ سے لفظِ اظہار سننے کا تجسس کیوں ہے۔۔؟؟" اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
"کیوں کہ اظہار لازم ہے۔۔!! جب تک کسی خالص جذبے کو لفظوں کے سانچوں میں ڈھال کر تقویت نہیں بخشی جاتی تب تک اگلا شخص، جس کے لیے وہ احساسات ہمارے قلب و وجود میں پنپتے ہیں وہ شبہات اور وسوں کا شکار رہتا ہے، ایک بے یقینی کی سی کیفیت اسے مضطرب کیے رکھتی ہے، اس لیے اظہار لازم ہے۔۔!!"
اس کا شعور، اس کے سوال کی ضد میں ایک مؤثر سی دلیل پیش کر چکا تھا، ایک تسلی بخش جواب، اس کی فہم کے پردوں پر ڈال چکا تھا۔
"اگر یہ بات ہے تو مجھے بھی معافی مانگنی پڑے گی۔۔!!"
"چلو۔۔ دیکھتا ہوں۔۔!! سوچوں گا اس بارے میں، میرا خیال ہے ابھی تو مجھے سکون سے آرام کرنا چاہیے۔۔!!"
جب کافی دیر وہ ایسی باتیں سوچ سوچ کر اکتاہٹ کا شکار ہوا تو اس نے اپنے سارے خیالات جھٹک کر، سونے کی ٹھانی۔
وہاں اس کی بیوی نیند کے مزے لے رہی تھی یہاں یہ مزے سے سونے کے لیے تیار لیٹا تھا۔
××××
عدیل کچھ دیر ہی سو سکا تھا، اٹھنے کے بعد بھی وہ رات تک کمرے سے نہ نکلا بلکہ مسلسل اپنا لیپ ٹاپ لیے، آفس کے کام میں بزی رہا، آج عجیب سی بے زاری،
اس کی طبیعت پر طاری تھی، اس لیے اس کا باہر نکلنے کو دل ہی نہ کیا، وہ صبح تک باہر نہ نکلتا مگر اس کی مام اسے ڈنر کا بلاوا دینے آئیں تو مجبوراً اسے جانا پڑا۔
ڈائنگ ٹیبل پر مصطفیٰ صاحب اور عادل پہلے ہی سے موجود تھے، دونوں نے اپنی دھیمی مسکراہٹوں سے اس کا خیر مقدم کیا، وہ عادل کے ساتھ ہی اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تھا، ایک طرف وہ دونوں تھے اور دوسری طرف ان کے مام ڈیڈ، کھانا بہت ہی خوشگوار ماحول میں کھایا جارہا تھا، کھانے کے ساتھ ساتھ گپ شپ کا سلسلہ بھی جاری تھا، لیکن عدیل اس گپ شپ میں کوئی خاص حصہ نہیں لے رہا تھا، وہ وہاں بیٹھا، صرف ہوں ہاں سے ہی کام چلا رہا تھا۔
باتیں کرتے کرتے عادل نے اپنی شادی کا ذکر چھیڑا ۔۔ "مام۔۔!! اب تو میرے ایگزامز بھی ہوگئے، آپ لوگوں کا، میری دلہن لانے کا کوئی ارادہ ہے۔۔؟؟" اس نے مزے لیتے ہوئے پوچھا۔
"استغفر اللّٰه، بیگم اپنے صاحب زادے کی بے صبریاں ملاحظہ کریں۔۔!!" مصطفیٰ صاحب نے مسکراتے ہوئے عادل کو دیکھ کر کہا، ان کی بات پر سبھی کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلی تھی، اس سے پہلے مام کچھ بولتیں ، عادل خود ہی بول پڑا۔۔ "نہیں ڈیڈ آپ بتائیں۔۔ اس گھر میں ، میں اکیلا کنوارا اچھا لگوں گا، آپ نے بھی مام سے شادی کر رکھی ہے، بھائی نے بھی ایک حسینہ قابو میں کی ہوئی ہے۔۔ اب آپ میرے لیے بھی تو کچھ سوچیں۔۔!!" وہ ہنستے ہنستے مذاق میں بولتا گیا۔
عدیل کو ، اس کے منہ سے عنقا کا تذکرہ سننا بالکل اچھا نہیں لگا، حالانکہ عادل کا بالکل یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ ایسی بات کہہ کر کوئی بدمزگی پیدا کرتا یا عدیل کا دل جلاتا۔۔ صرف یہی بات سوچتے ہوئے عدیل نے اپنے اندر پیدا ہونے والے غصے کو دبایا، اور کسی بھی قسم کے سخت ردعمل سے باز رہا۔
"بیٹا۔۔!! آج ہی تو تمہارے ایگزامز ختم ہوئے ہیں۔۔ تھوڑا صبر کرو۔۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔" مام نے جواب دیا۔
"میں تو صبر کر لوں گا۔۔ پر کیا ہے ناں۔۔ کہ لڑکیوں کا معاملہ ذرا نازک ہوتا ہے۔۔ ادھر ان کے پیپرز ختم اور ادھر ان کی شادی۔۔ اس سے پہلے غانیہ کہیں اور منسوب کردی جائے۔۔ آپ لوگ میرا پروپوزل لے کر جائیں۔۔ بس بات ختم ۔۔!! " عادل نے سنجیدگی سے اپنا موقف پیش کیا۔
"اچھا ٹھیک ہے کچھ کرتے ہیں۔۔!! عنقا اپنی امی کے ہاں سے واپس آجائے تو ، وہاں جائیں گے تمہارا رشتہ لے کر۔۔!!" فوزیہ بیگم نے بھی سنجیدگی سے اس کی بات کا حل پیش کیا۔
"مام۔۔ آپ ایسا کریں کہ،فی الحال آپ اور ڈیڈ چلے جائیں۔۔ اس کا کچھ نہیں پتہ کہ وہ کب آئے گی۔۔" عدیل نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
"کیوں۔۔؟؟ تم نے تو کہا تھا کہ وہ ایک دو دن کے لیے گئی ہے۔۔ پھر ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔۔؟؟" مام نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"اگر میں کچھ کہہ رہا ہوں۔۔ تو ضرور کچھ سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔۔ آپ لوگ پلیز سمجھیں۔۔!!"
"لیکن بیٹا۔۔ وہ گھر کی بڑی بہو ہے، وہ نہیں جائے گی تو میرے خیال سے برا لگے گا۔۔!! جب وہ آئے گی تو ہم آرام سے چلے جائیں گے۔۔۔" اس کی مام نے جواز پیش کیا۔
"مام۔۔!! دیکھیں ضد نہیں کریں ۔۔ میں آپ لوگوں سے کہہ رہا ہوں۔۔ کہ آپ لوگ خود چکے جائیں۔۔ اس کا انتظار نہ کریں۔۔!!" وہ آرام سے کہتا ، ٹیبل پر سے نیپکن اٹھاتا، اپنے ہاتھ صاف کرنے لگا۔۔اور ہاتھ صاف کرنے کے بعد کوئی بات کہے سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔
"اس کو کیا ہوا؟؟" مصطفیٰ صاحب نے پوچھا۔
"پتہ نہیں۔۔" فوزیہ بیگم کی۔۔ پریشان نظریں وہیں ٹکی تھیں۔۔ جہاں سے وہ ابھی اٹھ کر گیا تھا۔
"مام۔۔ آپ پریشان ہو رہی ہیں۔۔؟؟" عادل نے مام کا چہرہ دیکھ کر کہا،
"کب سدھریں گے یہ دونوں۔۔!! ضرور کوئی جھگڑا کیا ہوگا انہوں نے۔۔!!" وہ پریشانی سے بولیں۔
"اللّٰه ہدایت دے ان دونوں کو۔۔" مصطفیٰ صاحب بھی یہ کہتے ہوئے چیئر پیچھے کو کھسکا کر اپنی جگہ سے اٹھے، وہ بھی کھانا کھا چکے تھے، اس لیے اٹھ کر چلے گئے۔
اب ٹیبل پر فوزیہ بیگم اورعادل موجود تھے، عادل کچھ دیر ان کے پریشان چہرے کو تکتا گیا اور پھر ایک زبردست سا خیال ذہن میں لاتے ہی چہک اٹھا، اس نے فوراً ہی اپنی مام سے تبادلہ خیال کیا، اس کا آئیڈیا سنتے ہی، اس کی مام کی ٹینشن کہیں غائب ہو کر رہ گئی۔
××××
اگلے ہی دن عادل سمیت مصطفیٰ صاحب اور فوزیہ بیگم ، عادل کا رشتہ لے کر غانیہ کے گھر پہنچے، غانیہ نے پہلے ہی اپنے والدین کو راضی کیا ہوا تھا ، اس لیے عادل اور کی فیملی سے ملنے کے بعد ، انہوں نے فوراً ہی پروپوزل قبول کرلیا۔
رشتہ طے ہوجانے کے بعد دونوں بچوں کے والدین نے باہمی مشاورت کرتے ہوئے یہ طے کیا کہ منگنی کی بجائے ان دونوں کا نکاح کر دیا جائے، شادی پھر بعد میں ہوجائے گی، اس مقصد کے لیے انہوں نے دس دن بعد کی تاریخ، نکاح کے لیے منتخب کی، مصطفیٰ صاحب نے سوچا کہ اس دن عنقا اور عدیل کا ولیمہ بھی ہوجائے گا اور غانیہ اور عادل کا نکاح بھی ۔۔ ان کے اس منصوبے پر بھی غانیہ کے والدین کو کوئی اعتراض نہ تھا، وہ بےچارے سادے لوگ تھے اور ان کو اپنے داماد میں شرافت اور خوش اخلاقی کے علاؤہ اور کسی خوبی کی خواہش نہیں تھی، سب سے بڑھ ان کی بیٹی خوش تھی اور عادل میں وہ ان اوصاف کی موجودگی محسوس کر چکے تھے، اس لیے انہیں باقی کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
××××
سب کچھ عادل کے بتائے منصوبے کے تحت ہو رہا تھا، مصطفیٰ صاحب نے عنقا کے والدین سے بھی ولیمے کی بات فون پر ڈسکس کرلی تھی اور عنقا سے یہ بات چھپانے کی بھی ریکوئسٹ کی تھی۔
جب کہ عادل نے عدیل سے ان دونوں کے جھگڑے والی پوری بات اگلوا کر اسے بھی پلین میں شامل کیا۔۔۔اور وہ بھی خوشی خوشی مان گیا۔۔ بھلا عنقا کی واپسی سے بڑھ کر اسے کیا چاہیے تھا۔۔
×××
وہ عدیل کو الٹی الٹی باتیں سنا کر، بڑی بہادر بن کر گھر تو آ گئی تھی، پر اس کا یہاں ذرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا، یہاں اسے اریزے بھی بار بار یاد آتی تھی، اور وہ بالکل ہی اداس ہو کر رہ جاتی، پتہ نہیں کیا تھا مگر عدیل کے ساتھ رہتے ہوئے وہ اریزے کو یاد کرنے پر کبھی بھی اداس نہیں ہوئی۔
اسے اپنی جلد بازی پر رہ رہ کر افسوس ہورہا تھا۔ بار بار ایک ہی سوچ اس کی جان عذاب میں ڈالے ہوئی تھی کہ اسے عدیل کو موقع دینا چاہیے، وہ اگر خود کو بدلنے کی کوشش میں لگا ہے تو اس کو بھی عدیل کا ساتھ دینا چاہیے۔ بےشک وہ جن حالات سے گزری وہ آج بھی اپنی پوری حقیقت اور تلخی کے ساتھ اسے اچھے سے یاد ہیں اور ابھی تک وہ ان کو بھولنے میں ناکام رہی ہے لیکن دل کا فیصلہ ، دل کی مرضی کے مطابق مان لینا چاہیے۔
"غلطیاں تو انسانوں سے ہوتی ہیں ناں۔۔ اب اگر کوئی سچ میں شرمندہ ہو اور معافی کا طلب گار ہو تو اسے معاف کر دینا چاہیے، خصوصاََ جب معاف کردینے پر دل کواطمینان حاصل ہو۔" اس نے بے بسی سے سوچا۔
وہ بے بس ہی تو تھی، اپنے جذبوں کے آگے ، اپنے دل کے آگے۔
"تو ٹھیک ہے پھر۔۔ اگر وہ مجھ سے معافی مانگ لیتے ہیں تو میں بھی کوئی ضد کیے بغیر ان کے ساتھ رہ لوں گی۔۔ بے شک ہلکی سی، تھوڑی سی معافی مانگ لیں۔۔ ورنہ میں اکیلی ہی اچھی ہوں۔۔کیوں کہ، آگے بندہ معافی کا طلبگار ہو گا تو میں معاف کروں گی ناں۔۔اب اتنا تو حق بنتا ہے میرا۔۔ورنہ انہوں نے جو کیا۔۔ وہ معافی کے لائق تھا نہیں۔۔ ایوں اتنی درگزر سے کام لینے کا ظرف نہیں ہے مجھ میں کہ میں ان کے اعتراف کیے بغیر، معافی مانگے بغیر ہی معاف کردوں۔۔!!" اس نے ہار مانتے ہوئے سوچا۔۔ اور اب بے صبری سے اس کے معافی طلب کرنے کا انتظار کرنے لگی ، جیسے اسے یقین ہو کہ وہ ضرور اس سے معافی مانگے گا۔
××××
کرتے کراتے دس دن گزرے، غانیہ کے نکاح اور عنقا کے ولیمے کا دن آن پہنچا۔ اس دن غانیہ نے صبح صبح ہی کسی ایمرجنسی کا بہانہ کرکے اسے، اپنے گھر آنے کو کہا۔ عنقا آرام سے جانے کو تیار ہوجاتی۔۔۔ پر غانیہ اس کے لاکھ پوچھنے پر بھی ، یہ بتانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی کہ آخر ایمرجنسی ہے کیا، اور اس کی آواز سے عنقا کو بالکل یہ نہیں لگا کہ کوئی پریشانی یا خطرے کی بات ہے ، اس لیے وہ بضد تھی کہ اسے وجہ بتائی جائے، پر وہ وجہ بتانے کے لیے تھوڑی تھی ۔۔!! اس لیے عنقا کے مسلسل ہٹ دھرمی دکھانے پر غانیہ کو تپ چڑھی۔۔ وہ مان ہی نہیں رہی تھی اس کی بات۔۔!! غانیہ کو لگا کہ اس چڑیل سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اس نے کھٹاک سے فون بند کیا اور عنقا کی امی کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
اس کی امی نے کچھ دیر بعد اسے کیب منگوا کر دی اور یہ کہہ کر زبردستی وہاں بھیجا کہ بیٹا جاؤ، اسے کوئی ضروری کام ہے تم سے، ایسے نہیں کرتے۔۔ اور پتہ نہیں کیا کچھ کہہ کر ، اسے گھر سے نکالا۔
وہ بھی دل جلاتی غانیہ کے گھر پہنچی۔۔!!
"اف۔۔ گندی لڑکی ، اتنی دیر لگادی آنے میں۔۔ اب جلدی چلو۔۔ ہمیں پارلر جانا ہے،"
اس کے آتے ہی غانیہ سلام دعا کیے بغیر ہی اس پر چڑھ دوڑی۔۔
"کونسا پارلر۔۔؟؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"بہن۔۔ بیوٹی پارلر۔۔!! اور کونسا پارلر ہوگا بھلا۔۔!!"اس نے اس کا بازو پکڑا اور جلدی جلدی باہر کی طرف بڑھی۔۔ وہاں غانیہ کا کوئی کزن ، کار میں بیٹھا ان دونوں کا انتظار کر رہا تھا، ان کے آتے ہی وہ دونوں کار میں بیٹھیں۔
"لیکن ہم پارلر جا کیوں رہے ہیں۔۔؟؟؟" اس کی الجھن ابھی بھی برقرار تھی۔ اور اسے شدید غصہ آ رہا تھا، کیوں کہ غانیہ کی بچی سسپینس ختم کرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
"میرا نکاح اور تمہارا ولیمہ ہے ناں آج۔۔!! اس لیے تیار ہونے جا رہے ہیں۔۔!!" غانیہ نے اس کے گال پر چٹکی کاٹتے ہوئے، مسکرا کر بھانڈا پھوڑا۔
"کیا۔۔؟؟ ہوش میں تو ہو۔۔!! یہ تم کہہ کیا رہی ہو آخر۔۔؟؟" وہ بری طرح شاکڈ تھی۔
"بالکل ہوش میں ہوں۔۔ اور جو بول رہی ہوں صحیح بول رہی ہوں۔۔ زیادہ شاک میں آنے کی ضرورت نہیں ہے اچھا۔۔۔۔اس لیے، اب پلیز چپ رہنا ۔۔۔ کیوں کہ تم دلہن ہو ناں۔۔ اور دلہنیں زیادہ بولتی نہیں۔۔ اس لیے خود بھی خاموش رہو۔۔اور مجھے بھی رہنے دو۔۔" اس نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔
اس کی بات پر عنقا کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔۔ وہ غصے سے تن فن کرتی اپنا رخ پھیر گئی،اب وہ جل جل کر کار سے باہر کے مناظر دیکھنے میں مصروف تھی۔
غانیہ کے کزن نے فرنٹ مرر میں اس کے ایکسپریشنز دیکھ لیے تھے اور اوپر سے ان کی بحث بھی سن چکا تھا۔۔ اس لیے اسے ہنسی آ رہی تھی ہر شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے خود کو کنڑول کیا اور توجہ صرف ڈرائیونگ پر مرکوز رکھی۔
غانیہ کو بھی عنقا کو دیکھ دیکھ کر ہنسی آ رہی تھی۔
"دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور شکل مظلوموں والی بنا رکھی ہے۔۔!!" غانیہ اس کی حالت پر جملہ کسے بغیر رہ نہیں سکی۔
"دفع ہو جاؤ تم۔۔!! شرم نہیں آتی۔۔ اتنی بڑی بات عین وقت پر بتاتے ہوئے۔۔!! بندہ اپنے آپ کو ذرا دماغی طور پر تیار کر لیتا ہے ، اگر خوشی ہو رہی ہو تو سیلیبریٹ کر لیتا ہے۔۔!!" وہ غصے سے بولی۔
شاک لگنے کی باری غانیہ کی تھی۔
"مطلب تمہیں صرف اس بات کا غم ہے کہ تمہیں پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔!! میں تو سمجھی تھی کہ اپنے اچانک ولیمے پر منہ پھلا کر بیٹھی ہو۔۔ کہ تم سے بغیر پوچھے جو آرگنائز کر لیا۔۔!!"
"جب شادی بغیر پوچھے کی ہے تو ولیمے کی کیا اوقات۔۔!! ویسے مجھے ولیمے سے کوئی ایشو نہیں۔۔!!" عنقا کا موڈ ، خود بخود ہی بحال ہوگیا تھا۔۔ کیوں واقعی اس کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے تھے۔
××××
وہ لوگ پارلر پہنچ چکی تھیں۔۔ غانیہ کے کزن نے ان کا سامان ڈگی سے باہر نکال کر انہیں تھمایا، اور ان کے پارلر میں اینٹر ہونے کے بعد خود وہاں سے چلا گیا۔
×××
غانیہ، اپنے گولڈن گوٹے سے مزین سفید دوپٹے اور ٹخنوں کو چھوتی فراک میں بےحد پیاری لگ رہی تھی، نکاح کی مناسبت سے اس نے اپنا لباس بھی سادہ منتخب کیا تھا اور میک اپ بھی بالکل سادہ سا کروایا تھا ، جبکہ عنقا کی بکنگ تو عدیل نے خود کرائی تھی، اس لیے بیوٹیشن نے عدیل کی انسٹرکشنز کے مطابق ، فل ہیوی برائیڈل میک اپ کر کے، اسے کسی اور ہی سیارے کی مخلوق بنا دیا تھا۔۔ مطلب وہ اپنی سکن اور براؤن کنٹراسٹ والی ہیوی برائیڈل میکسی پہنے اور کمال کا میک اپ کیے لاجواب لگ رہی تھی۔
××××
عدیل اور اس کی مام ان دونوں کو پارلر سے پک کرنے آئے تھے، عدیل ،فل بلیک پینٹ کوٹ میں غضب ڈھا رہا تھا، اسے دیکھتے ہی ، ایک پل تو عنقا کی نظریں بھی اس پر ٹھہری تھیں۔۔ پر اس نے خود کو قابو کرتے ہوئے، فوری طور پر اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔
اب وہ ایک ہاتھ سے اپنی میکسی سنبھالتی اور ایک ہاتھ عدیل کے ہاتھ میں تھماتی، بڑی نزاکت سے قدم اٹھاتی کار تک آئی۔۔ جبکہ غانیہ کو ، فوزیہ بیگم آرام آرام سے لا رہی تھیں، عدیل نے عنقا کے لیے فرنٹ سیٹ کا ڈور کھولا تھا۔۔ وہ بھی خاموشی سے وہاں بیٹھ گئی۔
اس کے بعد اس نے مام اور غانیہ کے لیے دروازہ کھولا اور ان کے بیٹھنے کے بعد خود آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور کار اسٹارٹ کی، اس سے ڈرائیونگ پر بالکل کانسنٹریٹ نہیں ہو پا رہا تھا۔۔ نظریں۔۔ بار بار بھٹک کر، عنقا کے وجود پر ٹھہرتی تھیں۔۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو فوکسڈد رکھا۔۔ عنقا اور غانیہ بالکل خاموش بیٹھی تھیں، غانیہ تھی کہ خوش خوش سی ، شرم کے مارے خاموش تھی، جبکہ عنقا کہ چپ رہنے کا مقصد کچھ اور تھا، وہ منہ پھلائے بیٹھی تھی، جیسے عدیل پر اپنی ناراضگی جتانے کی کوشش کر رہی ہو، ان دونوں کے رویوں سے بے نیاز۔۔۔فوزیہ بیگم کا اپنی دونوں بہوؤں کی تیاری کی تعریفیں کرتے منہ نہیں تھکا ، وہ سارے راستے ان دونوں کی بلائیں لیتی ہال تک پہنچیں۔۔!!
مام پہلے کی طرح ، غانیہ کو ساتھ لیے ہال کے برائیڈل روم کی جانب بڑھیں جہاں اس کا اور عادل کا نکاح ہونا تھا۔ اور عنقا بھی پیچھے ویسے ہی عدیل کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی، چہرے کے تاثرات میں ذرہ بھر بھی بدلاؤ نہیں آیا تھا، وہ ابھی بھی تنے ہوئے تھے۔ وہ عدیل کی طرف سے کوئی معافی تلافی والے الفاظ کی امید لگائے بیٹھی تھی اور وہ گونگا بنا، کچھ کہہ ہی نہیں رہا تھا، "ویسے بہت ڈھیٹ ہیں آپ ۔۔۔ ابھی تک مجھ سے اپالوجائز نہیں کیا آپ نے۔۔!!" وہ ناراض سی ، لفظ چباتے ہوئے ، دھیمی آواز میں بولی۔
"تم نے بھی تو کنفیس نہیں کیا کہ میں تمہیں زہر نہیں بلکہ تمہاری محبت لگتا ہوں۔۔!!" اس نے مسکراتے ہوئے سرگوشی کی۔
"پہلے آپ اپالوجائز کریں۔۔!!" اس نے شرط رکھی۔
"مطلب پھر کنفیس کرلو گی۔۔؟؟" اس نے شرارت سے پوچھا۔ پتہ نہیں آج اس کی ساری سنجیدگی کہاں چلی گئی تھی!
"آپ پہلے کنفیس میرا مطلب ہے اپالوجائز کریں۔۔!!"
"اوکے۔۔!! تو سنو۔۔!! مائے ڈئیر لولی وائف۔۔!! ۔۔یار۔۔ نہیں بولا جا رہا ۔۔!!" اس کا انداز ستانے والا تھا۔
"عدیل۔۔!!" اس نے کچا چبا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں کہا، وہ دونوں یہ گفتگو چلتے چلتے ہی کر رہے تھے۔
برائیڈل روم آ چکا تھا، وہاں غانیہ کے پیرنٹس، عنقا کے پیرنٹس، مصطفیٰ صاحب اور باقی سب بھی پہلے سے ہی موجود تھے، ادھر ایک صوفے پر اسے بھی غانیہ کے ساتھ بٹھایا گیا، جبکہ عدیل ، عادل کے ساتھ دوسرے صوفے پر بیٹھا تھا،عادل بھی آف وائٹ کلر کے کرتا شلوار اور اوپر گولڈن کلر کی انتہائی نفیس سی ویسٹ کوٹ پہنے، نہایت ہی پیارا لگ رہا تھا، اس کے اور غانیہ کے نکاح اور عنقا ،عدیل کے ولیمے کی تقریب بہت شاندار گزری۔
تقریب سے واپسی پر ، غانیہ کی فیملی اور باقی مہمانوں کے چلے جانے کے بعد، عادل، فوزیہ بیگم اور مصطفیٰ صاحب ایک گاڑی میں گھر کو روانہ ہوئے جبکہ عنقا اور عدیل دوسری گاڑی میں۔
عدیل خاموشی سے کار ڈرائیو کر رہا تھا۔۔ اور عنقا اس کی ادھوری بات مکمل کرنے کے انتظار میں تھی۔
"آپ کچھ کہہ رہے تھے۔۔!!" اس نے خود ہی بات شروع کی۔
"کب۔۔؟؟" وہ انجان بنتے ہوئے بولا۔
"جب ہم ہال میں اینٹر ہو رہے تھے۔۔!!" اس نے منہ بنا کر کہا۔ وہ اس کے انجان بننے کی ایکٹنگ پر شدید تپی تھی۔
"اچھا۔۔ ہاں۔۔ یاد آیا۔۔!! وہ میں کہہ رہا تھا۔۔ یارر۔۔ پلیز۔۔ اپنے جنگلی کو معاف کردو۔۔ اور خوشی خوشی اس کی جنگلن بن کر اس کے ساتھ رہو۔۔ اب یہ مت پوچھنا کہ جنگلن کیا ہوتا ہے۔۔!! کیوں کہ جنگلی کی بیوی جنگلن ہی ہوگی ناں۔۔!!" وہ معصومیت سے بولا۔
عنقا منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔۔ وہ غصہ کرنے لگی تھی۔۔ پر اپنے لیے جنگلن کا لفظ سن کر اس کا بے اختیار قہقہہ چھوٹا۔۔ عدیل نے بے شک اپنے معافی نامے کو ذرا مذاق میں اس کے سامنے پیش کیا تھا۔۔ پر وہ اس کا صدق جانتی تھی۔۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ جتنا کہہ رہا ہے۔۔ واقعتاً وہ اس سے کہیں زیادہ گلٹی محسوس کرتا ہے اور اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنے جرم کا ازالہ کر سکے۔۔ اس لیے اس نے اسے معاف کردیا تھا۔۔ وہ تو شاید بہت پہلے ہی معاف کر چکی تھی۔۔ یہ تو بس دل کی تسلی کی خاطر، اسے عدیل کے منہ سے یہ لفظ سننے کی چھوٹی سی خواہش تھی۔
"چلو۔۔ اب تم بھی بولو۔۔ تم نے کہا تھا کنفیس کرو گی۔۔!!" وہ اسے مسلسل ہنستا ہوا دیکھ کر بولا۔
"اچھا۔۔جی۔۔ چلیں کر دیتی ہوں کنفیس۔۔!! وہ ناں اصل میں جنگلی کے اندازے درست تھے۔۔!! آپ مجھے زہر نہیں بلکہ وہ لگتے ہیں۔۔!! اب اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی ، مجھے شرم آتی ہے۔۔!!" عنقا کی پھر سے ہنسی چھوٹی تھی۔
"چلو۔۔ تمہارے لیے اتنا بہت ہے۔۔!! آئی نو ، یو کو می۔۔!!" عدیل نے مسکرا کر کہا۔اور یہاں سے ان دونوں کی زندگیوں کے مسکراہٹوں بھرے باب کا آغاز ہوا۔ جہاں انہوں نے ایک دوسرے کی خطائیں فراموش کرکے ایک دوسرے کو اپنی محبتوں کا مان بخشنا تھا۔
جہاں انہوں نے ہمیشہ آسودہ رہنا تھا۔